پھیرن

کشمیر کا روایتی لباس

پھِیرن اور پُوٹس کشمیری مرد و خواتین کے مخصوص روایتی لباس کا نام ہے۔ [1] پھِیرن یا پُوٹس اوپر نیچے پہنے جانے والے دو جُبّوں (گاؤن) پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک ساتھ دونوں اوپر نیچے پہنے جاتے ہیں۔[2] روایتی کشمیری پھِیرن اور پُوٹس کی لمبائی پاؤں تک ہوتی ہے اور یہ انداز انیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک خاصا مقبول رہا۔[3]تاہم پِھیرن اپنی جدید شکل میں گھٹنوں سے نیچے تک ہوتا ہے [4]جو سُتھن ( شلوار کی ایک ڈھیلی قسم ) کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ یہ افغانستان میں پہنی جانے والی شلوار سے مشابہ ہوتی ہے۔[5][6] لمبے پھیرن کے ساتھ سُتھن پہننا لازمی نہیں ہوتا، یہ پہننے والے کی مرضی ہے کہ طویل پھیرن کے ساتھ روایتی زیر جامہ پہنے کیونکہ روایتی پھیرن کے چاک نہیں ہوتے۔

ایک بزرگ کشمیری روایتی پھیرن پہنے اپنے پوتے کے ساتھ کشمیری .

گرمیوں کے موسم میں پھیرن سوتی کپڑے کا ہوتا ہے اور سردیوں میں پُوٹس سوتی جبکہ پھیرن اونی کپڑے کا ہوتا ہے۔ پھیرن پورے بدن کو سردی سے بچاؤ کے لیے ڈھانپے رکھتا ہے خصوصا برفباری کے دوران یہ مکمل حفاظت کرتا ہے۔ یہ لباس وادی کشمیر کے باشندے اور وادی چناب میں رہنے والے کشمیری پہنتے ہیں۔

اشتقاقیات

ترمیم

لفظ پھیرن کی اصل کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملتے البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فارسی کے لفظ “پیراہن” کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی لباس کے ہیں۔ یہ لباس پندرہویں صدی عیسوی سے بھی پہلے کا کشمیر کی ثقافت کا حصہ ہے۔[7]

انداز

ترمیم

سرپوش

ترمیم

ہندو خواتین اور خصوصا پنڈت گھرانوں کی عورتیں سر ڈھانپنے کے لیے ایک سکارف نما کپڑا استعمال کرتی ہیں جو پشت پر نیچے پاؤں کی سمت جاتے ہوئے بتدریج چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اسے تَرنگا کہا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین سرخ رنگ کا ایک سر پوش باندھتی ہیں جسے کَسَبا کہا جاتا ہے۔ کَسَبا پگڑی کی طرح بل دار انداز سے تہ در تہ ہوتا ہے جس کی تہوں کو جڑاؤ پن سے باہم متصل کر دیا جاتا ہے۔ کَسَبا کے ساتھ ایک دوپٹہ نما جڑاؤ پن سے نتھی ہوتا ہے جو نیچے آتے ہوئے گردن کے ساتھ حمائل ہوتاہے۔

پھیرن

ترمیم

پھیرن اطرافی چاکوں کے بغیر ایک ڈھیلا ڈھالا عبایا نما لباس ہے جسے آستینوں پر قدرے چنٹوں کے سے انداز میں ہلکا سا سی دیا جاتا ہے۔ یہ آستینیں بھی کشادہ ہوتی ہیں۔ [8]اسے عموماً اون یا جاموار سے بنایا جاتا ہے۔ جاموار اون اور کاٹن کا مخلوط کپڑا ہے۔ [9]

روایتی پھیرن ایک گاؤن کی طرح ہوتا ہے جس کی لمبائی پاؤں تک ہوتی ہے۔ [10] جو انیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک ہندو اور مسلم آبادی کا عمومی لباس تھا۔ [11] تاہم پھیرن کی جدید شکل کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے جو مسلمان پہنتے ہیں یہ ڈھیلا ڈھالا عبایا نما سامنے کی استر پر ٹانکوں سیا ہوتا ہے جبکہ ہندوؤں کا پھیرن کمر سے بندھا ہوا[12] اور لمبائی میں ٹخنوں تک ہوتا ہے۔ [13] خوبصورت کشیدہ کاری اور بیل بوٹوں کی کڑھائی کشمیری خواتین کی پھیرن کا ایک لازمی جزو ہے۔ یہ عموماً ریشمی دھاگوں یا سنہرے تار سے کاڑھے گئے پھول ہوتے ہیں۔ روپہلے تار کی کشیدہ کاری کو کشمیری زبان میں طِلّے (طلاء) کا کام کہا جاتا ہے۔

پُوچ

ترمیم

پُوچ بھی پھیرن کی طرح ہی ہوتا ہے لیکن پھیرن کی نسبت ہلکے کپڑے سے بنا ہوتا ہے اور پھیرن کے نیچے پہنا جاتا ہے۔ اسے پھیرن کے نیچے پہننے کی وجہ پھیرن کو کانگڑی (کانگڑ)کی کی چنگاریوں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوہری تہ شدید سردی سے بچاؤ اور حرارت کے لیے بھی مددگار ہوتی ہے۔

سُتھَن/شلوار

ترمیم

روایتی طور پر پھیرن اور پُوٹس بغیر کسی زیر جامے کے پہنے جاتے تھے۔ [14] [15]اور یہ حقیقت ہے، پڑوسی ریاست ہنزہ میں بھی خواتین 1890 تک پاجامہ نہیں پہنتی تھیں اور اسی طرح ریاست نگر میں بھی یہی رواج 1925 تک رہا۔[16] انیسویں صدی عیسوی کے آواخر سے ڈھیلی سُتھنیں ( شلواریں ) اور پنجاب کے چوڑی دار پاجامے کشمیری ملبوسات میں داخل ہوئے اور فیشن و پہناوے کا حصہ بن گئے۔ [17] [18] اسی طرح سے سُتھن یا چوڑی دار پھیرن اور پُوٹس کے حصے کے طور پر پہنے تو جا سکتے ہیں لیکن یہ ان کا جزو لازم نہیں ہیں۔ کشمیری سُتھن کھلی اور ڈھیلی ہوتی ہے بالکل ڈوگری سُتھن کی طرح جو جموں کے علاقے میں پہنی جاتی ہے۔ اس کے کچھ انداز افغانستان میں پہنی جانے والی شلوار جیسے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم 1960 کی دہائی سے پنجابی شلوار بہت مقبول ہوئی ہے[19][20][21]

کانگڑ

ترمیم

کانگڑ ( دیوناگری: कांगर) جسے کانگڑی، کنگیڑ اور کنگیر بھی کہا جاتا ہے[22] ۔ وہ ایک روایتی کشمیری ہتھ انگیٹھی کا نام ہے۔ یہ ایک بید کی بنی ٹوکری ہوتی ہے جس کے اندر مٹی کا ایک موٹی تہ والا پیالہ سا رکھا ہوتا ہے۔[23] اس کے اندر کشمیری گرم سرخ کوئلے ڈال کر اپنے روایتی لباس پھیرن کے اندر پکڑے رکھتے ہیں۔ کشمیر کی شدید سردی خود کو سفر و حضر میں گرم رکھنے کے لیے کانگڑی ایک ضرورت ہے۔ کانگڑی کے آلات کو فن کا ایک اعلی نمونہ بھی مانا گیا ہے۔[24]

جدید فیشن

ترمیم

اگرچہ ملبوسات کے جدید رجحانات میں شلوار قمیض کو پھیرن پر فوقیت حاصل رہی ہے [25] لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے پھیرن پہننے کے رواج کو دوبارہ سے زندہ کیا گیا ہے اور پھیرن بھی اب جدید ملبوسات میں شامل ہے [26] پھیرن اب کشمیر کے علاوہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی پہنی جاتی ہے [27] کشمیری مرد بھی پھیرن کو جدید فیشنی لباس کے طور پر پہننے لگے ہیں [28] پھیرن اور جینز کا امتزاج دفتری دنیا میں رواج پا چکا ہے [29] جدید پھیرن اب ویسی کھلی اور لمبی نہیں ہوتی [30] جیسا کہ روایتی پھیرن تھی بلکہ اب اس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں چاک بھی ہوتے ہیں۔ اب بہت کم مرد پھیرن کے ساتھ شلوار پہنتے ہیں [31]

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Kashmir Through Ages (5 Vol) By S. R. Bakshi
  2. Colonel Tej K Tikoo (2013) Kashmir: Its Aborigines and Their Exodus
  3. Letters from India and Kashmir (1874)
  4. Raina, Mohini Qasba (2013) Kashur The Kashmiri Speaking People
  5. Asoke Kumar Bhattacharyya, Pradip Kumar Sengupta Foundations of Indian Musicology: Perspectives in the Philosophy of Art and Culture (1991) [1]
  6. Bamzai, P. N. K. (1994) Culture and Political History of Kashmir, Volume 1 [2]
  7. Dewan, Parvez (2004) Parvéz Dewân's Jammû, Kashmîr, and Ladâkh: Kashmîr [3]
  8. Forster, George (1808) A Journey from Bengal to England, Through the Northern Part of India, Kashmire, Afghanistan, and Persia, and Into Russia, by the Caspian-Sea, Volume 2 [4]
  9. Asoke Kumar Bhattacharyya, Pradip Kumar Sengupta Foundations of Indian Musicology: Perspectives in the Philosophy of Art and Culture (1991) [5]
  10. Jain, Simmi (2003) Encyclopaedia of Indian Women Through the Ages: The middle ages [6]
  11. Letters from India and Kashmir (1874) Muslim women are shown as recent as 1870 wearing the long Phiran [7]
  12. Kashmir, Volumes 2-3 (1952)
  13. "How Kashmiris keep themselves warm during winter - Kazinag"۔ Sites.google.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2014 
  14. Cultural Heritage of India- Kashmiri Pandit Contribution. The Publication of Kashmir Sabha, Calcutta (1999-2000) [8] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ koausa.org (Error: unknown archive URL)
  15. Irby, Augustus Henry (1863) The diary of a hunter from the Punjab to the Karakorum mountains [9]
  16. Chohan,Amar Singh (1893) Historical Study of Society and Culture in Dardistan and Ladakh [10]
  17. Kumar, Raj (2006) Paintings and Lifestyles of Jammu Region: From 17th to 19th Century A.D. [11]
  18. Kapur, Manohar Lal (1992) Social and economic history of Jammu and Kashmir State, 1885-1925 A.D. [12]
  19. India. Office of the Registrar General (1961) Census of India, 1961: Jammu and Kashmir [13]
  20. Dorris Flynn (1986) Costumes of India
  21. Shri Parmananda Research Institute, 1982 Glimpses of Kashmiri Culture, Volume 5 [14]
  22. Mohammad Ishaq Khan (1978)۔ History of Srinagar, 1846-1947۔ Aamir Publications۔ صفحہ: 85۔ OCLC 5220131 
  23. M. Afzal Qadri، G̲h̲ain He Gūrkū (1997)۔ Cultural Heritage of Kashmir۔ یونیورسٹی آف کشمیر۔ صفحہ: 31۔ OCLC 39292540 
  24. A. N. Raina (1981)۔ Geography of Jammu and Kashmir۔ نیشنل بک ٹرسٹ۔ صفحہ: 144۔ OCLC 9260048 
  25. Dhar, Somnath (1999( Jammu and Kashmir
  26. Piyali Bhattachary (14 April 2015)Khadi Couture: How to Wear Kashmiri Tweed Wall Street Journal [15]
  27. Dhar, Somnath (1999( Jammu and Kashmir
  28. Ishfaq-ul-Hassan (11 February 2015) DNA Real aping reel: Kashmir valley gripped by 'Haider' pheran fever [16]
  29. Rashid, Toufiq (29 November 2014) Hindustan Times. Pheran making a political statement in Kashmir [17] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindustantimes.com (Error: unknown archive URL)
  30. (Hassan, Firdous (11 February 2015) The Kashmir Monitor. With e-commerce 'Pheran' goes global [18] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kashmirmonitor.in (Error: unknown archive URL)
  31. Medhora, Sarosh (2 September 2000) The Tribune. Focus on men’s formals