افغانستان: کوڑے مارنے کی سزاؤں اور ان پر سرعام عملدرآمد پر تشویش
انسانی حقوق پر اقوم متحدہ کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کے ترجمان جیریمی لارنس نے افغانستان میں کوڑے مارنے کی اجتماعی سزاؤں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان کے موجودہ حکمران طالبان نے گزشتہ روز (4 جون) کو 63 افراد کو علاقہ سرائے پل میں کھیل کے ایک میدان میں سرعام کوڑے مارے۔
کوڑے مارنے کی جن 63 افراد کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ان میں 48 مرد اور 15 خواتین شامل تھیں۔ ان افراد کو ’گھر سے بھاگنے‘ اور ’اخلاقی بے راہ روی‘ جیسے الزامات کے تحت سزائیں سنائی گئی تھیں۔
عالمی قوانین کی خلاف ورزی
سزا پانے والے ہر فرد کو 15 سے 39 بار کوڑے مارے گئے۔ کوڑے مارنے کی سزا پر عملدرآمد کے بعد انہیں دوبارہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کھیل کے میدان میں جب ان افراد کو کوڑے مارے جا رہے تھے تو سینکڑوں افراد پر مشتمل مجمع یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
انسانی حقوق دفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کوڑے مارنے جیسی جسمانی سزائیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ افغانستان تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزاؤں کے خلاف کنونشن اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کا فریق ہے، جن کے تحت تمام لوگوں کو وقار اور برابری کے ساتھ رہنے کا بنیادی انسانی حق حاصل ہے۔
خواتین کی دہری مصیبت
جیریمی لارنس نے کہا کہ خواتین کو زنا اور دیگر نام نہاد اخلاقی بے راہ روی کے الزامات کے تحت سزائیں دی جا رہی ہیں اور ایسی ممنوعہ سزاؤں پر اس طرح سرعام عملدرآمد سے ان خواتین کے اپنے خاندانوں اور برادریوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ترجمان نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ ان غیر انسانی سزاؤں پر عملدرآمد فوری طور پر روکا جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدالتی کارروائی کو شفاف اور منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملزمان کو اپنے دفاع اور وکیل رکھنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے۔