انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان: یونیسف کی دوران حیض سکولوں میں لڑکیوں کی حاضری بڑھانے کی مہم

ایک جائزے کے مطابق سکول جانے والی لڑکیوں کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد ماہواری کے ایام میں تعلیمی اداروں سے غیرحاضر رہتی ہے جس سے ان کی پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے۔
Courtesy: Lok Sujag Pakistan
ایک جائزے کے مطابق سکول جانے والی لڑکیوں کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد ماہواری کے ایام میں تعلیمی اداروں سے غیرحاضر رہتی ہے جس سے ان کی پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان: یونیسف کی دوران حیض سکولوں میں لڑکیوں کی حاضری بڑھانے کی مہم

رپورٹ: محمد فیصل (پاکستان)
صحت

عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے پاکستان میں لڑکیوں کے لیے ماہواری میں صحت و صفائی کے حوالے سے 'سماجی رویوں میں تبدیلی لانے کی ٹول کِٹ' کا اجرا کیا ہے جس کی بدولت انہیں صحت مند رہنے اور سکولوں میں ان کی حاضری بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے اقدام کا ایک اور اہم مقصد ماہواری/حیض سے متعلق دقیانوسی تصورات اور منفی سماجی رویوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس سے ملک بھر کی خواتین اور بالخصوص سکول جانے والی لڑکیوں کو ماہواری کے دوران آگاہی پر مبنی مددگار ماحول میسر آئے گا۔

اس ٹول کِٹ کے ذریعے افراد، خاندانوں اور معاشروں کو ماہواری سے متعلق معلومات کی فراہمی کے علاوہ لڑکیوں کو اس معاملے میں بااختیار بنانے کے لیے جامع ذرائع اور حکمت عملی پیش کی گئی ہے۔

ماہواری اور 'خاموشی'

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ عائشہ بتاتی ہیں کہ جب انہیں پہلی مرتبہ پیریڈ (ماہواری) ہوئے تو انہیں شرمندگی محسوس ہونے لگی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ کسی بیماری کا شکار ہو چکی ہیں۔ دو ماہ کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کو اس بارے میں بتایا تو تب انہیں پہلی مرتبہ علم ہوا کہ یہ کوئی مرض یا ایسی صورتحال نہیں جس پر شرمندہ ہوا جائے بلکہ یہ معمول کی جسمانی کیفیت ہے۔

یونیسف کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں سکول جانے والی تقریباً نصف لڑکیوں کو پہلی ماہواری آنے سے قبل اس جسمانی کیفیت کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔ ماہواری آنے کے بعد بیشتر لڑکیوں کے لیے ان معلومات کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ان کی مائیں اور بڑی بہنیں ہوتی ہیں۔

بقیہ کو سکولوں میں اپنی اساتذہ سے اس بارے میں بنیادی نوعیت کی چند معلومات ملتی ہیں۔ بعض لڑکیاں انٹرنیٹ سے اس بارے میں رہنمائی لیتی ہیں لیکن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی (کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون) تک رسائی کے فقدان اور اس معاملے میں صنفی عدم مساوات کی وجہ سے سبھی کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔

یونیسف کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں سکول جانے والی تقریباً نصف لڑکیوں کو پہلی ماہواری آنے سے قبل اس جسمانی کیفیت کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔
UN News

سکولوں سے غیرحاضری

عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 10 سے 19 سال تک عمر کی صرف 53 فیصد لڑکیاں ہی سکول جاتی ہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں نصف سے زیادہ لڑکیوں کو ماہواری سے متعلق صحت و صفائی سے آگاہی نہیں ہوتی جس کے باعث ان کی سکول میں حاضری اور اس کے نتیجے میں تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے۔

ایک جائزے کے مطابق سکول جانے والی لڑکیوں کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد ماہواری کے ایام میں تعلیمی اداروں سے غیرحاضر رہتی ہے جس سے ان کی پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نقصان ملک میں لڑکیوں کی ناخواندگی کے مجموعی نقصان کا حصہ بن کر ان کی زندگی پر کئی حوالوں سے دوررس منفی نتائج مرتبہ کرتا ہے۔

صحت و صفائی کے مسائل

غیرسرکاری ادارے واٹر ایڈ کے مطابق، پاکستان میں سکول جانے کی عمر میں بہت سی لڑکیوں کو گھروں پر ماہواری سے متعلق صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔ ان کی بڑی تعداد ماہواری میں صفائی قائم رکھنے کے لیے سینیٹری نیپکن (پیڈز) نہیں خرید سکتی اور وہ اس مقصد کے لیے کپڑا استعمال کرتی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جو ایک ہی کپڑے کو کئی مرتبہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں۔

یونیسف کے مطابق، ملک کے ایک تہائی سکولوں میں لڑکیوں کے لیے مناسب بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔ اگر کہیں لڑکیوں کو ایام ماہواری کے حوالے سے حسب ضرورت چیزیں میسر بھی ہوں تو استعمال کے بعد ان کی تلفی کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہوتا۔

دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں میٹرک کی طالبہ ماہم کہتی ہیں کہ نسبتاً ترقی پسند سمجھے جانے والے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں بھی اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی۔ خواتین اساتذہ طالبات کو اس بارے میں معلومات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن ان کے پاس اس مقصد کے لیے کوئی باقاعدہ تربیت نہیں ہوتی۔

سکول جانے والی نصف سے زیادہ لڑکیوں کو ماہواری سے متعلق صحت و صفائی سے آگاہی نہیں ہوتی جس کے باعث ان کی سکول میں حاضری اور اس کے نتیجے میں تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے۔
UN News

ٹول کِٹ کیا کرے گی؟

اس ٹول کٹ کی تیاری میں یونیسف کے شراکت دار غیرسرکاری ادارے 'وائٹ رائس' کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راحیل وقار کہتے ہیں کہ پاکستان میں سماجی اقدار کے نام پر خواتین کی جنسیت کو ایسا موضوع بنا دیا گیا ہے جس پر کھل کر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر انہیں یہ معلومات تب ملتی ہیں جب وہ پہلی ماہواری کے تجربے سے گزر چکی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کی بڑی تعداد اس جسمانی تبدیلی سے قبل اس کے بارے میں آگاہ یا اس کے لیے تیار نہیں ہوتی۔

یہ ٹول کِٹ دراصل ایام ماہواری میں صحت و صفائی برقرار رکھنے کے لیے طالبات کو دی جانے والی عملی رہنمائی کا نام ہے۔ اسے لڑکیوں کو ان ایام میں پیش آنے والے جملہ مسائل کا حل مہیا کر کے صحت و صفائی قائم رکھنے میں مدد دینے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔

راحیل وقار کا کہنا ہے کہ خاص طور پر اس ٹول کِٹ کو ماہواری کی صحت کے حوالے سے سماجی رویوں کو تبدیل کرنا کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے افراد، خاندانوں (بشمول مَردوں) اور پورے معاشرے کو ماہواری میں صحت و صفائی برقرار رکھنے سے متعلق آگاہی پانے اور اس معاملے میں صحت مند طریقہ ہائے کار اور مددگار ماحول کو فروغ دینے میں مدد ملےگی۔