مندرجات کا رخ کریں

امام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امام عربی کا ماخوذ لفظ ہے، اس کا معنی رہبر ہے۔ (جو مذکر و مونث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے) جس کی جمع ائمہ ہے۔ یہ اسلامی رہبری کا عہدہ ہے جو اکثر مسلمانوں کی جماعت کے رہنما اور مسجد میں عبادت پر رہنما پر استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اسلامی عبادت و تعلیمات کا عالم ہوتا ہے۔

لغوی معنی

[ترمیم]

لفظی معنی رہبر ہے۔

اس کے استعمالات مندرجہ ذیل ہیں۔

رہبر و رہنما، پیشوا، جس کی اقتداء کی جائے، نمونہ، واضح راستہ، قرآن، خلیفہ، امیر لشکر، مصلح و منتظم، ڈوری جس سے معمار عمارت کی سیدھ قائم کرتے ہیں .[1]

سرغنہ، سردار، تسبیح کا بڑا دانہ نیز دیگر استعمالات۔

اصطلاحی معنی

[ترمیم]

کئی اصطلاحی معانی ہیں۔

  • کسی بھی فن کا معروف عالم۔ جیسے: فن حدیث میں امام بخاری، فن فقہ میں امام ابو حنیفہ۔
  • فقہ میں پیش نماز کو کہا جاتا ہے۔
  • علم کلام میں، اہل تشیع کے نزدیک امام وہ نمائندہ الہٰی ہے جو مقام عصمت پر فائز ہوتاہے جو امت کی رانمائی کرتا ہے چاہے لوگ،ان پر ایمان رکھے یا نہیں، چاہیے لوگ ساتھ دیں یا نا دیں۔ امام کو لوگوں کی ووٹ کی ضرورت نہیں ہوتی چونکہ وہ لوگوں کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے خدا ہی اس کو انتخاب کرتا ہے جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا[2][3]

امامت اہلسنت نقطہ نظر میں

فقہی اعتبار سے اہل سنت پانچ اماموں کی تقلید کرتے ہیں۔

اہل تشیع بھی تقلید کرتے ہیں لیکن زندہ مجتہد کی پس ہر زمانے میں اسی زمانے میں موجود مجتہد کی تقلید کرتے ہیں اور کسی خاص فرد یا زمانے میں تقلید کو محصور نہیں کرتے جیسا کہ اہل تسنن،پانچ اماموں میں تقلید کو محصور کرتے ہیں۔

اسلامی القاب

[ترمیم]

امامت اہل تشیع نقطہ نظر میں

[ترمیم]

عظیم مکتب اسلام کا توحید اور نبوت کے بعد بنیادی و اساسی ترین رکن اور اصلی مدار امامت و ولایت ہے اور یہ کہ بشریت کبھی امام کے مقدس وجود سے خالی نہیں رہے گی۔[4] و من المواضيع المہمۃ وا لاسياسۃ الّتي يجب البحث والتحقيق حولہا، بل وتوضيح الزوايا المبہمۃ منہاہي الخلافۃ الرسول(ص) و مبحث الامامۃ والولايۃ۔[5] مکتب تشیّع میں امامت اصول دین میں سے ہے اس لیے اس مکتب میں امام شناسی اور امامت کے متعلق وسیع، عمیق و دقیق اور فراگیر تحقیقات و جستجو اسلام میں طویل و وسیع سابقہ رکھتی ہیں۔[6] اہل تشیع ایسا مذہب ہے جو ہر زمانے میں وجوب امامت اور امام کے موجود ہونے پر کاملاً یقین و اعتقاد رکھتا ہے اور امام کی عصمت و کمال پر نص صریح و جلی کو واجب سمجھتا ہے اور سلسلہ امامت کو حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ۔ (س) کی اولاد اطہار(س) میں تا دم قیامت منحصر سمجھتا ہے۔[7] حقيقت ميں تشيع کی اساس و بنياد ائمہ معصومين(س) کي ہدايت و رہنمائي اور ان کی عصمت پ رہے جوعقلی اور نقلی مختلف طريقوں سے ثابت ہو چکا ہے۔[8] ولايت و امامت کے موضوع ميں شيعہ آيات الھی من جملہ آيات ولايت پر عمل پیرا، رسول خدا(ص) کي احادیث اور آپ کی سنت طیبہ کے پابند، اہل بيت(س) کے پيروکار، ادلہ شرعي کے ملزم و پابند اور دليل و برھان کے سامنے سر تسليم خم کرنے والے ہيں۔ عقیدہ امامت پر تشیّع کی قطعی ادلہ اوائل اسلام اور اولیہ تین ادوار [9] جب مذاہب اربعہ[10] کا نام و نشان تک نہ تھا سے ہی شروع ہوتی ہیں اور نہایت مستدل، محکم، منطقی، صریح اور کامل ہیں۔ جو کچھ قرآن اور عترت سے ہم تک پہنچا ہے , اس کے منطوق و مفہوم نے ولايت و امامت سے تمسک کے وجوب کو دو چندان کر دیا ہے۔[11] تشيع کے نطقہ نظر سے امام عظيم فضائل و اوصاف، اعلیٰ خصوصيات اور منحصر بہ فرد صفات کی مالک شخصت کو کہا جاتا ہے۔[12] در حقیقت امام و امامت سے متعلق تمام حقائق کو بیان کرنا عمیق و دقیق تحقیقات، اعلیٰ تحلیل , استدلال کی روش سے وسیع و فراگیر آگاہی، وسیع معلومات، دقت نظر، حق جوئی، آزادانہ فکر، بلند ہمتی ان تھک اور لگاتار کوشش اور اسلام کی صحیح تاریخ سے مکمل آشنائی کا محتاج ہے۔ رسول اکرم(ص) کي بعثت تاريخ بشريت کا عظيم ترين واقعہ اور ان کي رسالت دنياوالوں کے لیے ايک عظيم و برجستہ سر آغاز تھا، رسول خدا(ص) کے بعد اس عظيم والٰہی منصب کے آگے بڑھانے والے ائمہ معصومين(س) تھے اِن حضرات(س) کي ولايت کے ذريعے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت روز قیات تک مستمّر اور مستحکم ہوئی ہے۔ امامت کا مقام رفیع اور اس کی عظمت فقط امت اسلام کی سیاسی رہبری تک ہی محدود نہیں بلکہ امامت سلسلہ نبوت سے متصل مضبوط کڑی اور عہدہ رسالت کوعملا پایہ تکمیل تک پہچانے والا عظیم منصب ہے۔ امام نہ صرف دین (کتاب و سنہ) کی تفسیر اور اس کے معانی بیان کرنے کی مکمل لیاقت و صلاحت رکھتا ہے بلکہ یہ امام ہی ہے جو نبوت و رسالت کے اختیام کے بعد دین کا محافظ اور خلق پر خالق کی حجت ہے۔ امام کے مبارک وجود کے بغیر، بلکہ امام کی معرفت اور اس کے ساتھ تمسک کے بغیر عقاید دینی میں انحراف ،سستی اور عقاید فاسدہ کا اتخاذ اور ان پر عمل وجود میں آئے گا۔ چونکہ ایک طرف انسان لغزش، خطا و غلطی اور عصیان و نافرمانی سے خالی نہیں ہے۔ دوسری طرف انبیا و رسل بھیجنے کا سلسلہ اختتام پزیر ہو چکا ہے۔ اس بنا پر خالق اور مخلوق کے مابین اتصال و رابطے کا واحد ذریعہ اور چشمہ زلالِ ہدایت سے سیراب ہونے اور دنیاوی و اخروی سعادت و خوش بختی کا واحد , مسلّم، قطعی اور یقینی راستہ امام کا مقدس وجود ہے لہذا سلسلہ امامت کے ذریعے ہی قیامت تک انسان کی ہدایت و راہنمائی ممکن ہے جبکہ دوسری صورت میں انبیا و رسل کا فلسفہ وجودی اور ان کے ارسال کا ہدف و مقصد ثابت اور پورا نہیں ہوگا اور زمین ہدایت بشریت کے لیے حجت خدا سے خالی رہے گی۔

نگار خانہ

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. المنجد : صفحہ # 35
  2. البقرۃ، 124
  3. شیخ طوسی، شارح: علامہ حلی ۔۔ "باب الامامت"۔ کشف المراد 
  4. {يوم ندعو کل اناس بامامہم} سورہ اسراء آيۃ/71“امام” کا مادہ(اُم يُؤَمَّ) سے ہے جس کا معنی رہبر، پيشوا، مقتداء , رہنماء اورہدايت کرنے والا ہے، اس طرح کہ اس کي رھبري دنيا و آخرت کے سبھی ابعاد کو شامل ہو اور ہميشہ کي سعادت ابدی کاميابي کي حامل ہو۔
  5. ا ستاد عطايي اصفھاني“الحجج البالغۃ في حقانيّۃ التشيع“, ص22, مجمع جھاني شيعہ شناسي,1385ش۔
  6. عبد الجبار رفاعي مؤلف “معجم ما کتب عن الرسول(ص) و اہل بيت(ع)”نے امام اور امامت سے متعلق اہل تشیّع کی13059 کتب کي فہرست نقل کی ہے۔
  7. اوائل المقالات ص38.
  8. ليکن مکتب خلفاء کے پيروکاروں کي اساس و بنياد تمام اصحاب کي عدالت کے دعویٰ کی نبیاد پر استوار ہے۔
  9. پہلے تین ادوار یہ ہیں:1۔ پیغمبر اسلام(ص) کا زمانہ2۔ اصحاب کا زمانہ3۔ تابعین کا زمانہ۔
  10. مذاھب اربعہ(چار مذہب )يہ ہيں: 1۔ حنفي,2۔ مالکي, 3۔ شافعي,4۔ حنبلي.
  11. سورہ قصص کي آيہ 50 کے ذيل ميں آيا ہے: {مَنْ اضلَ ممّن اتبع ہواہ بغير ہديً من اللہ ان اللہ لايہدي القوم الظالمين} آیا اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جس نے ہدایت الٰہی کو ٹھکرا کر اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو؟ تحقیق کہ خدا ظالم قوم کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔۔۔☜۔۔۔۔ امام رضا(ع) سے نقل ہوا ہے کہ آيہ کا مقصد وہ گمراہ شخص ہے جس نے اپنا دين اور رویہ خود اپنے ہي افکار و آراء کو قرار ديا ہے اور ھدايت کے اماموں کي پيروي نہيں کرتا۔“ بحارالانوار” ج15, ص17.
  12. شيعہ معتقد ہيں : ”الامام امين اللہ في ارضہ و حجتہ علي عبادہ و خليفتہ في بلادہ، الامام ہوالاعلم والافہم باالدين والاقرب ولا تقي اللہ و ہو افضل ابناء الجنس ال البثري, ترجمان الحكمۃ والعلم الاہي, الامامۃ ہي القيادۃ، الشرعيۃ بعد النبي, الامامۃ اصل من اصول الدين و رئيس الاعلي للمسلمين وجميع شئونہم الدينيۃ والدنيويۃ، الامامۃ، ہي رمز الارتباط الخالق والمخلوق، من مہام الامام ان يبين الدين و امراللہ للعالم كلہ فضلاً عن الامام باالضرورۃ معصوم و مصون من الخطا والزلل۔“